پونے کے گریش باگمر ویسے تو آتے ہیں کانگریس کے حامیوں کے خاندان سے لیکن یو پی اے دور میں ہوئے گھوٹالوں نے ان کا کانگریس کے تئیں دیگر حامیوں کی طرح موہ تحلیل کر دیا ہے. باگمر کانگریس کو چھوڑ بی جے پی کے بجائے ہندو سویم سیوک سنگھ سے زیادہ متاثر ہو گئے ہیں اور بوسٹن میں رہنے کے باوجود وہ اپنے بیٹوں کو اے چے سیس طرف چلائی جا رہی شاخ میں بھیج رہے ہیں.
ہندو سویم سیوک سنگھ یعنی بیرون ملک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ. امریکی میں رہنے والے کئی ہندوستانی اپنے بچوں کو اس شاخ میں بھیجتے آ رہے ہیں. باگمر کہتے ہیں کہ میں نے کبھی اس شاخ میں نہیں گیا، لیکن اپنے بچوں کو وہاں ضرور بھیج رہا ہوں تاکہ وہ ہندوستانی لوگوں سے گھلے-ملے اور ہندوستانی تہذیب کے بارے میں جان سکیں.
ہم نے تو ہندوستانی تہذیب کے بارے میں اپنی نانی دادی سے کہانیوں کے طور پر جان لیا تھا، لیکن میری ماں امریکی بار بار نہیں آ سکتیں تو بچے اس
معلومات سے محروم نہ رہ جائیں. غور طلب ہے کہ امریکی ان 39 ممالک میں سے ایک ہے جہاں اے چے سس اپنی شاخیں چلا رہی ہے. یہ معلومات آر ایس ایس کی غیر ملکی شاخوں کام تلاش کر رہے رمیش سبرامنیم نے دی.
انہوں نے 1996 سے 2004 کے درمیان ماریشس میں شاخیں قائم کرنے کا کام کیا. لیکن اب وہ سروس کا کام دیکھ رہے ہیں جو کہ آر ایس ایس سروس پروجیکٹ کو دیکھتی ہے، اس فنڈنگ بیرون ملک میں رہ رہے ہندوستانی کرتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ اے چے سس دیگر ہندو اداروں جیسے چنميا اور رام کرشن مشن کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے.
جن 39 ممالک میں شاخیں کام کر رہی ہیں اس میں سے پانچ مشرق وسطی میں کام کر رہی ہیں، اگرچہ بیرونی شاخیں کھولنے کی اجازت نہیں ہے تو وہاں رہے لوگوں کے گھروں سے ہی یہ کام چل رہا ہے. وہیں فن لینڈ میں ای-شاخ کام کر رہی ہے، یہ شاخ ويڈيو کانفرنسنگ کے ذریعے بیس ممالک کے لوگوں کو اےچےسےس سے جوڑے رکھتی ہے جہاں شاخ موجود نہیں ہے.